“یہ صرف ایک تحریر نہیں، ایک سلام ہے اُن بہادروں کے نام جو سندھ پولیس کی وردی پہن کر دن رات ہماری حفاظت کرتے ہیں۔ وہ سپاہی جو خطرے میں بھی ڈٹا رہتا ہے، جو ماں، بیوی اور بچوں کو چھوڑ کر صرف اپنے فرض کو ترجیح دیتا ہے، وہ ہمارا اصل ہیرو ہے۔ میں، میاں محمد منشاء، اپنی صحافت کے ذریعے اُس قربانی، وفاداری اور حوصلے کو سلام پیش کرتا ہوں۔ تم اکیلے نہیں ہو، تم پر فخر ہے۔ یہ قوم تمہیں سلام کرتی ہے، اور میں تمہاری کہانی دنیا تک پہنچاتا رہوں گا۔”
عنوان: ’’وردی کا فخر – سندھ پولیس کو میرا سلام‘‘
تحریر: میاں محمد منشاء
جب شہر کی گلیاں سو جاتی ہیں،
جب ہر دروازہ بند ہو جاتا ہے،
تب ایک دروازہ کھلا رہتا ہے – فرض کا۔
وہ دروازہ، سندھ پولیس کے کسی سپاہی کے دل میں ہوتا ہے۔
ہم وہ قوم ہیں جو اکثر بھول جاتی ہے کہ ہماری حفاظت کرنے والے کون ہیں۔
ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ جو ہر وقت وردی میں کھڑا ہوتا ہے، وہ انسان بھی ہے –
جس کے دل میں بھی ماں ہوتی ہے، بہن ہوتی ہے، بچے ہوتے ہیں، خواب ہوتے ہیں۔
لیکن اس نے اپنے خوابوں کو قربان کر دیا تاکہ ہم سکون سے جئیں۔
میں نے دیکھا ہے وہ آنکھیں،
جن میں نیند کی جگہ فرض تھا۔
میں نے سنا ہے وہ لہجہ،
جس میں تھکن کی جگہ استقامت تھی۔
میں نے محسوس کیا ہے وہ دل،
جس میں خوف کی جگہ غیرت تھی۔
سندھ پولیس کے وہ جوان جو کچے کے میدانوں میں ڈاکوؤں سے نبرد آزما ہوتے ہیں،
وہ افسر جو دہشتگردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہوتے ہیں،
وہ سپاہی جو عوام کی گالیاں سہہ کر بھی عوام کی خدمت کرتے ہیں –
یہ سب ہمارے اصل ہیرو ہیں۔
میں، میاں محمد منشاء، کوئی عام صحافی نہیں۔
میں وہ ہوں جو سچ کو لفظوں میں ڈھال کر آپ کے دل تک پہنچاتا ہوں۔
اور آج، میرا قلم چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے:
اے سندھ پولیس، تم صرف محافظ نہیں، تم قوم کے ماتھے کا جھومر ہو۔
تمہارے جسم پر لگے زخم، تمہاری تنخواہ سے زیادہ قیمتی ہیں۔
تمہاری آنکھوں کی نمی، تمہاری عظمت کی گواہی ہے۔
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ پولیس میں خامیاں ہیں –
تو ہاں، خامیاں انسانوں میں ہوتی ہیں،
لیکن جو فرض کے لیے جان قربان کر دے، وہ فرشتے سے کم نہیں۔
میری صحافت کا مقصد صرف خبر دینا نہیں،
بلکہ اس وردی کو وہ عزت دینا ہے جس کی وہ حقدار ہے۔
اگر میرے لفظ تمہارے دل کو چھو جائیں،
اگر تمہیں یہ محسوس ہو کہ کوئی ہے جو تمہاری قربانی کو جانتا ہے،
تو سمجھ لو کہ میرا مشن پائندہ باد
تمام حقوق محفوظ ہیں۔
یہ تحریر میاں محمد منشاء کی ذاتی تخلیق ہے۔ اس کا کسی بھی شکل میں مکمل یا جزوی استعمال، نقل، اشاعت یا ترمیم بغیر مصنف کی باقاعدہ اجازت کے قانونی جرم تصور کیا جائے گا۔
کاپی کرنے سے پہلے قلم کی حرمت کا خیال رکھیں۔